قارئین السلام علیکم! آج میں آپ کو ایک ایسی چیز کے بارے میں بتانے جارہا ہوں جو کہ موجودہ دور میں کسی غلط فہمیوں کی وجہ سے پسند نہیں کی جاتی اور گزشتہ دور میں اسے اپنا کر فخر سمجھا جاتا تھا، وہ ہے ٹوپی۔ ٹوپی سارے مذاہب میں لازم قرار دی جاتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی محمد عربیﷺ کی یہ سنت ہے کہ سرور کونینﷺ کا سر مبارک کبھی بھی ٹوپی سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ عیسائیوں کا بڑا پادری جس کو پوپ کہتے ہیں اگر آپ اس کی تصویر دیکھیں تو اس کے سر پر ٹوپی ہے۔ آپ یہودیوں کے مذہب کے بڑوں کو دیکھیں تو وہ اپنے سر کو کبھی بھی ننگا نہیں رکھتے۔ سکھ مذہب میں بھی پگڑی پہننا فرض ہے۔پتہ نہیں ہم اس چیز سے محروم کیوں ہوگئے ہیں کہ اگر ہم سر کے اوپر ٹوپی سجاتے ہیں تو لوگ ایسے حقیر نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے ٹوپی پہننے والا کسی علت یا معذوری میں مبتلا ہے۔ یہ حقیر نظریں دیکھنے والوں کی غلطی نہیں بلکہ یہ میری غلطی ہے کہ میں انہیں اس چیز کے بارے میں آگاہی نہ دے سکا۔ اگر آپ کی کسی ادارے میں جاب ہے اور وہاں اس چیز کی اجازت نہیں ہے تو کوئی بات نہیں، اپنی مصروفیت سے فراغت حاصل کرکے فارغ وقت میں اس کو پہن لیں۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر بادشاہوں کی تصاویر نکال کر دیکھیں تو ان کے سر بھی کبھی ننگے نہیں ہوں گے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہوں۔ ان کے سر پر ہیرے جواہرات سے بنا ہوا دلکش تاج سجا ہوگا۔ اگرچہ ضروری تو نہیں آپ ٹوپی ہی پہنے، آپ قراقلی ٹوپی، سندھی، بلوچی یا جیسی آپ کو اچھی لگے لیکن وہ سر کو ضرور اپنی لپیٹ میں لے۔ میں ایک بچے کا واقعہ سناتا ہوں۔ اس بچے کے والد صاحب نے مجھے بتایا کہ میرا بیٹا کسی بھی حالت میں سر سے ٹوپی نہیں اتارتا میں نے کہا کہ کیا وجہ ہے؟ بچے کے والد صاحب بتانے لگے اس نے سن رکھا ہے کہ جو بندہ ننگے سر رہتا ہے شیطان اس کے سر کے اوپر پیشاب کردیتا ہے۔ اب اس بچے کو اس بات کا اتنا یقین ہوگیا تھا جبکہ اس بچے کے والد صاحب خود ہر وقت سر پر ٹوپی نہیں پہنچتے۔ بچہ نے تو وہی کرنا ہے جو والد کرتے ہیں لیکن اس کو اس بات کا اس حد تک یقین تھا کہ کوئی بھی اسے اس معاملے میں تنگ کرتا لیکن وہ اپنی بات پر پکا رہتا۔
ایک اور واقعہ جب میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ (حکیم محمد رمضان چغتائی) بستر مرگ پر تھے، وہ بول نہیں سکتے تھے چلنا پھرنا بالکل ختم ہوگیا تھا تو بیٹھےبیٹھے ان کے سر کے اوپر سے ٹوپی اُتر گئی۔ بولنے کی صلاحیت تو جاچکی تھی تو انہوں نے اشاروں سے یہ فرمایا کہ اس ٹوپی کو میرے سر پر واپس رکھو!! یعنی سر ڈھکنا اتنا لازم ہے کہ وہ بیماری کی حالت میں جب شریعت ہر چیز کی رخصت دیتی ہے تب بھی اس چیز کا اتنا خیال رکھ رہے ہیں۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے انہوں نے یہ عمل کرکے ہمیں ایک سبق دیا۔
تردید:جون 2021ء کے عبقری شمارہ کے صفحہ نمبر 22 پر رومی احمد پوری کے کالم میں ’’میں نے حکیم محمد طارق محمود چغتائی سے بڑا سخی نہیں دیکھا‘ ‘شیخ الوظائف نے اس عنوان کی سخت تردید کی ہے‘ دفتر میں ان کی اجازت کے بغیر یہ عنوان لگایا۔ انہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں